ہمارے ہاں بیشتر گھرانوں میں بچوں پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے اور زیادہ تر والدین اپنے بچوں کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں، وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے کی اقدار بھی بدلتی جارہی ہیں لیکن شکر ہے کہ تاحال خاندان کو ترجیح دینے والے لوگوں میں اب بھی ہمارا شمار ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں، مائیں اب بھی بچوں کی پرورش پر خاص توجہ دیتی ہیں۔ والدین اب بھی بیٹوں کی اعلیٰ تعلیم اور بیٹیوں کی شادی کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردیتے ہیں اور اس کے بدلے میں اولاد سے بڑھاپے کا سہارا بننے کی توقع کرتے ہیں۔ لیکن اگر غور کیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ ان سب باتوں کے باوجود بچوں کی پرورش کے سلسلے میں ہمارا رویہ متوازن نہیں ہے۔ کیونکہ جب بچے چھوٹے ہوتے ہیں تو ایک جانب تو ہم ان پر بے حد توجہ دیتے ہیں اور ضرورت سے زیادہ ان کا خیال رکھتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف ان کی تربیت کی جانب سے بے حد لاپرواہ ہوجاتے ہیں اور انہیں من مانی کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں، اس بات کا خیال کیے بغیر کہ دوسرے لوگوں پر بچوں کا کیا تاثر قائم ہوگا۔
ہمارے ہاں کی بیشتر مائیں ہمہ وقت بچوں کو اپنے پہلو سے لگائے پھرنے کو کافی سمجھتی ہیں، جہاں بھی جاتی ہیں ایک بچہ گود میں تو دوسرے بچے دائیں بائیں ماں کا آنچل یا انگلی تھامے ساتھ ساتھ نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کی محبت اور لاڈ پیار گویا یہیں پر تمام ہو جاتا ہے چونکہ منزل مقصود پر پہنچتے ہی وہ بچوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ منزل مقصود کسی دوست یا عزیز کا گھر یا کوئی شاپنگ سینٹر وغیرہ بھی ہوسکتا ہے۔ ان جگہوں پر پہنچنے کے بعد مائیں اپنی مصروفیت اور اپنی باتوں میں الجھ کر بچوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہیں۔ بچے دوسروں کے گھروں میں کیا دھما چوکڑی مچاتے پھر رہے ہیں اور کن چیزوں کا نقصان کررہے ہیں انہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی، نہ ہی وہ بچوں کو روکتی ٹوکتی ہیں۔ میزبان شرافت اور اخلاق کے باعث کچھ نہیں کہہ پاتا لیکن مائوں کو قطعی خیال نہیں ہوتا کہ کوئی زبان سے چاہے کچھ نہ کہے لیکن دل میں کیا سوچے گا اور ہوسکتا ہے کہ بچہ شرارت میں اپنے آپ کو ہی کوئی نقصان پہنچالے۔ اسی طرح بازاروں، مارکیٹوں اور شاپنگ سینٹرز میں ماں اپنی خریداری میں مگن ہوکر یہ بھی بھول جاتی ہے کہ وہ گھر سے اپنے بچوں کو ساتھ لے کر چلی تھی۔ جب اسے مول تول سے فرصت ملتی ہے تب ہی بچوں کا خیال آتا ہے اگر بچے اردگرد ہی دکانداروں کا سکون برباد کرتے مل گئے تو ٹھیک، ورنہ اکثر و بیشتر وہ دور نکل جاتے ہیں اور پھر ماں چیخ چیخ کر انہیں آوازیں دیتی پھرتی ہے یا گمشدگی کے اعلانات کروانے کی نوبت آجاتی ہے۔ یہی صورت حال تفریح گاہوں اور پارکس وغیرہ میں بھی پیش آتی ہے۔
بچے تو خیر ناسمجھ ہیںلیکن آپ اپنا فرض نبھائیے!
چلیں تفریح گاہ کی حد تک تو بچوں کو ساتھ لے جانا ٹھیک ہے لیکن شاپنگ کے لیے یا کسی سہیلی سے ملنے جاتے ہوئے بچوں کو ساتھ لے جانا سمجھ میں نہیں آتا۔ اکثر مائوں کا یہ عذر کہ گھر پر بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں، کافی حد تک مبالغے پر مبنی ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر گھروں میں گھر کے بزرگ یا دوسرے افراد موجود ہوتے ہیں یا پھر کوئی نہ کوئی ملازمہ تو ضرور ہوتی ہے۔ تاہم اگر آپ بچوں کو ساتھ لے جانا ہی چاہتی ہیں تو کم از کم انہیں اتنے آداب ضرور سکھائیں کہ اپنی شرارتوں سے کسی کو نقصان نہ پہنچائیں اور آپ کے ساتھ ساتھ رہیں، خود آپ کو بھی چاہئے کہ بچوں کی مسلسل نگرانی رکھیں اور انہیں آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیں۔ بچوں کی تربیت کا فقدان اس وقت بھی دیکھنے میں آتا ہے جب والدین انہیں ریسٹورنٹس میں ساتھ لے کر جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ خود تو مزے دار کھانوں سے لطف اندوز ہونے میں مصروف اور اپنی گفتگو میں مگن ہوتے ہیں لیکن بچے میزوں کے اردگرد بھاگتے پھرتے ہیں یا کھانے سے بھری پلیٹیں اور چمچے بار بار پُرشور آواز میں نیچے گراددیتے ہیں۔بچے تو خیر نا سمجھ ہوتے ہیں مگر یہ خصوصاً ماں کا فرض ہے کہ انہیں اچھی تربیت دے اور بہترین آداب سکھائے۔
کبھی بچوں کا حد سے زیادہ خیال رکھنا ان کی ذرا سی تکلیف پر بے چین ہو اٹھنا، ان کے لیے اپنی ضرورتوں کی قربانی دینا، انہیں زمانے کے سرد و گرم سے بچائے رکھنا
اور خود تکلیفیں جھیلنا تو کبھی اتنی لاپروائی کہ ان کی بنیادی تربیت سے بھی غافل ہو جانا اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا، خواہ وہ اپنے آپ کو ہی کوئی نقصان کیوں نہ پہنچالیں، ایسے متضاد روئیے ہیں جن کا اثر بچے کی شخصیت پر اچھا نہیں پڑتا۔ اس لیے بچوں کی پرورش کے لیے اپنے روئیے میں ہمیشہ توازن رکھیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں